تحریر: علی حسن شگری پی ایچ ڈی اسکالر جامعۂ کراچی
حوزہ نیوز ایجنسی । اسلام ایک جامع و کامل دین ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل رہنمائی موجود ہے۔ انسانی زندگی کا بنیادی ترین رکن، اقتصاد ہے۔ اسلام نے اقتصاد اور حلال کسب معاش کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے۔ جو قومیں اقتصادی طور پر مفلوج ہوں تو وہ فقر و ناداری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو کھو دیتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے جیسا کہ سید محمد باقر صدرؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی بھوکے سے پوچھا گیا۔ ایک اور ایک ؟ تو اس نے کہا دو روٹیاں۔ تو یہ اقتصادی کشمکش انسان کے ذہن کو کس درجہ کے انحطاط تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ ریاضی ایک مسلّم مسئلے کو صحیح طریقے سے بیان نہیں کر سکتا۔ (اقتصادنا، باقر صدر، باب العلم ،ج 1 ص 13)
جس کو فقر و ناداری سے پلہ پڑا ہو وہ اہم کاموں کے بارے میں کیسےسوچ سکتا ہے؟ کس طرح اپنی اور دوسروں کی علمی ترقی کا سوچ سکتا ہے؟ بہت سے انسان فقر و ناداری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو کھو دیتے ہیں اور بری خصلتیں ان کے دل و دماغ میں بس جاتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی قوتِ فکر مفلوج اور سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک نظام اور اس کی ترقی کے لیے احکامات اور ذرائع بیان کئے ہیں۔
اسلام نے اقتصاد ی نظام میں بہت سے ذرائع کا تذکرہ کیا ہے، لیکن ان میں سے تجارت کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے رزق کے دس حصّوں میں سے نو حصوں کو تجارت میں قرار دیا گیا ہے۔(الكافی ،ج5 , باب النوادرص : 304)
اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ، فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔ یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے، ان میں خسارہ، دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ انسانی نظام کے ماتحت تمام اقتصادی نظام میں سودی نظام ہی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے ۔ لیکن آج کی مسلم دنیا اسی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور لوگ صبح و شام خدا سے جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
شہید صدر اقتصاد کے بانی:
جب دنیا پر دو منحوس نظام اقتصاد نے قبضہ کیا اور سود کی شکل میں شیطانی پنجوں نے تمام ملکیت آدمیت پر قبضہ کرنا شروع کیا، تو اس وقت دنیا کو سودی نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی، اسلامی نظام اقتصاد پر بھی انگلیاں اٹھ رہی تھی اور دو نظام مارکسزم اور اشتراکی نظام پوری طاقت و قوت سے ساتھ پوری دنیا، بالخصوص مسلمانان عالم کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے نظام میں شامل کر رہے تھے اس وقت ایک نابغۂ روزگار انسان، جناب آیت اللہ سید محمد باقر صدرؒ نےباب علم نجف کی تنگ گلیوں سے آواز دی کہ تمہاری فکر میں بصیرت کی کمی ہے، جبکہ اسلامی نظام اقتصاد میں کوئی کمی نہیں ہے اس کے ثبوت میں انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تحریر فرما کر دونوں نظام اقتصاد کو چلینج کرتے ہوئے اسلامی نظام اقتصاد کا تعارف فرمایا۔ آپ نے خاص طور سے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ تمہارے کمائے ہوئے مال میں دوسرے کچھ افراد کا بھی حصّہ ہے جسے حقوق العباد کہا جاتا ہے اگر یہ مال دوسرے حقداروں تک نہ پہنچایا تو للہ اسے معاف نہیں کر سکتا۔ (مشکاةرقم: ۱۸۸۹)اس نظام اقتصاد اسلامی میں خاص کر انفاق فی سبیل اللہ، صدقات، خیرات خمس و زکواۃ، کفارات کا ذکر کیا ہے جو کسی بھی انسانی نظام میں موجود نہیں ہے۔
عالم اقتصاد میں آپ کی کتاب "اقتصادنا "نے ہل چل مچا رکھی ہے جسے آپ نے 28 سال کی عمر میں تحریر کی تھی، جبکہ اس وقت مارکسزم اور سرمایہ دارانہ نظام سے اسلامی و غیر اسلامی ریاستیں ان کی دی ہوئی ظالمانہ نظام کی دلدل میں پھنستی جارہی تھیں۔ عوام الناس اور کمزور ریاستیں اس ظالمانہ سودی نظام کی وجہ سے دم گھٹ کر فنا ہو رہی تھیں، نظام اسلام پر انگلیاں اٹھنے لگیں کہ اس دین میں کوئی نظام اقتصاد نہیں ہے۔ اس وقت آپ نے اقتصادنا تحریر کر کے مارکسزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے مدمقابل اسلامی اقتصادی نظام کو متعارف کروایا۔ دور حاضر میں آپ کو "پدر اقتصاد اسلامی" کے عنوان سے جانا جاتا ہے اور آپ کا شمار اقتصاد کی دنیا میں اسلامی اقتصاد کے بانی کے طور پر ہوتا ہے۔
آپ کی تحریر کردہ کتاب " اقتصادنا " کا ہدف، اسلامی اقتصاد کی بنیاد کو بیان کرنے کے ساتھ دوسرے بڑے اقتصادی نظام کے درمیان فرق کو بیان کرنا تھا۔ آپ نے مارکسزم اور سرمایہ دارنہ نظام کی بنیادوں کو بیان کرنے کے بعداس نظام کو ایک سیاہ اور ظالمانہ نظام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نظام غریب اقوام کے سرمائے کو امیروں کے جھولی میں ڈالنے اور ان کو ہمیشہ غلامی میں رکھنے والا نظام کہہ کر تنقید کی، اسلامی اقتصادی نظام کو ہی تمام انسانوں کی مشکلات قراد یتے ہوئے اس کے طریقہ کار کو بیان کیا۔
مارک بلاگ نامی ایک ماہر معاشیات نے The Great Economists of the World کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں دنیا کے 220 عظیم ماہرین اقتصادیات کی سوانح اور افکار کو زیر بحث لایا ہے ۔اس کتاب میں شہید صدر کا تعارف ان 220 افراد میں سے ایک کے طور پر کیا ہے اور اس فہرست میں شہید صدر ؒکے علاوہ کسی کو اسلامی ماہر معاشیات نہیں کہا گیا ہے۔ (Vasael.ir/0004EB )
اقتصادنا تحریر کرنے کا ہدف:
شہید صدرؒ نے اس کتاب کو اس وقت تحریر کیا جبکہ دو ظالم نظاموں مارکسزم اور سرمایہ داری سے دنیا نگلتیبجا رہی تھی اور عالم اسلام انگشت بہ دندان حیرت اور دہشت و خوف کے عالم میں تماشائی بنے لقمہ اجل ہو رہے تھے اور اس وقت سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا اسلام ایک ضابظہ حیات نہیں ؟! اگر ہے تو اس کا نظام عادلانہ کہاں ہے؟
ان حالات میں اقتصادنا تحریر کی گئی جس کے اہداف کو خود شہیدؒ نے اس کتاب کے مقدمے میں بیان کیا ہے۔ آپ نے اس کتاب کو اسلامی اقتصادیات میں غور و فکر کی ایک ابتدائی کاوش قرار دیا ہے۔
سیدمحمدباقر صدر نے اقتصادنا میں اقتصادی مکتب اور علم اقتصاد کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے کہا ہے کہ علم اقتصاد معاشرے میں اقتصادی موارد کو کشف کرتا ہے اور ان کے عوامل اور آپس کے رابطے کو بیان کرتا ہے جبکہ اقتصادی مکتب لوگوں کی اقتصادی زندگی کو عادلانہ طریقے سے منظم کرنے کو بیان کرتا ہے۔
ان کے عقیدے کے مطابق، اسلام میں اقتصادی مکتب کا ذکر ہوا ہے لیکن علم اقتصاد کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اسلامی اقتصاد، اقتصادی زندگی کو منظم کرنے کا عادلانہ طریقہ بیان کرتا ہے اور علمی اکتشافات کے پیچھے نہیں ہے؛ مثال کے طور پر، اسلام، حجاز میں ربا(سود) کے عناصر اور علل و وجوہات کے پیچھے نہیں تھا؛ بلکہ اس نے اسے ممنوع کیا اور مضاربہ کے نام پر ایک اور سسٹم کی بنیاد رکھی۔
مارکسزم کا تعارف اور اس نظام پر تنقید:
مارکسزم کے نظام اقتصاد کی بنیاد مزدور کی محنت کو قرار دیا جاتا ہے اس کی مثال یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک کاشتکار روزانہ دو گھنٹے تین ماہ تک کام کرتا ہے اور جو گیہوں حاصل ہو وہ 180 گھنٹے محنت کا سرمایہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص کاغذ بناتا ہے اس نے بھی 180 گھنٹے محنت کر کے کا غذ بنایا ہے تو دونوں کا تبادلہ عین عدل ہے،اس لیے دونوں نے محنت برابر کی ہے۔ شہیدصدر ؒفرماتے ہیں یہ ایک ظالمانہ نظام ہے اس لیے اس نظام میں محنت کو مد نظر نہیں رکھا جا رہا۔ مثلا: اگر ڈاکٹر، مریض کے جبکہ اپ میں جو وقت لگتا ہے، آپ نے صرف اسی کو مد نظر رکھاہے، لیکن جو اس نے ڈاکٹری کے لیے شب و روز کی محنت کی ہے، اس کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔ لہذا یہ نظام عادلانہ نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا تعارف اور اس نظام پر نقد
سرمایہ دارانہ نظام کے تین محور ہیں آزادی ملکیت، آزادی تصرف، آزادی صرف۔ جس میں سرمایہ دار اپنے سرمائے کے بل بوتے پر مزدور سے محنت کروا کے خودسرمایہ اور منفعت کا مالک بن جاتا ہے۔ مزدور کا سرمایہ اور منفعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مزدور کما کر سرمایہ دار کی گود میں ڈال کر خیرات کا طلب گاربن جاتا ہے۔اس نظام میں سرمایہ دار مالک جبکہ محنت کرنے والا "غلامِ کل" بن کے رہ جاتا ہے۔ اس ظالمانہ نظام میں مزدور اپنی محنت کے پھل سے بھی محروم رہتا ہے۔
اسلامی اقتصاد کا تعارف اور اس کے اصول و مبانی:
اسلامی اقتصادی نظام کے تین عناصر ہیں: ملکیت، محدود آزادی اور اجتماعی عدالت۔
اسلامی نظام اقتصاد اور دوسرے نظاموں جیسے: سرمایہ دارانہ نظام یا اشتراکیت وغیرہ سے مختلف نظام کا نام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادی ملکیت کو مرکزیت حاصل ہے، جبکہ اشتراکیت میں حکومت کو مرکزیت حاصل ہے اور انفرادی ملکیت کا تصور نہیں ۔اسلامی نظام اقتصاد، انفرادی ملکیت کا بھی قائل ہے اور اجتماعی و حکومتی ملکیت کا بھی قائل ہے، چونکہ نظام اسلامی کی روح، عدالت ہے؛ اس لیے ان دو ملکیت میں ٹکراو نہیں ہوتا۔ (اقتصادنا، شہید باقرالصدرؒ، فصل سوم)
اسلامی اقتصاد میں ملکیت اور محدود آزادی کاتصور موجود ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام، انفرادی اور اجتماعی ملکیت دونوں کا قائل ہے۔ اجتماعی ملکیت سے مراد "ولی امر" کی سرپرستی اور اس کے اجتماعی مفاد کی خاطر استعمال کرنے والے اختیارات ہیں۔ اس کے علاوہ اجتماعی ملکیت میں فقراء و مساکین کے حقوق ہیں جو خمس، زکواۃ ، صدقات، خیرات، فطرہ اور رد مظالم کی صورت میں نکالا جاتا جس کا صاحب مال، مالک نہیں ہوتا اور محدود آزدی سے مراد حاکم شرع، اقتصادی طرب و نشاط کو حرام قرار دیا اور جس سے اسلامی قدریں متاثر ہو رہی ہوں، جیسے: سود خوری، ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔اس کے علاوہ افراد کے اپنے مال کےان جائز تصرفات پر بھی ،جو معاشرے کے حق میں مضر ہوں، پابندی عائد کر سکتے ہیں تاکہ اجتماعی مفاد کا تحفظ کیا جا سکے۔
اسلامی اقتصاد میں شہید صدرؒ نے اجتماعی عدالت کو ایک اساسی جز قرار دیا ہے اور پیداور اور تقسیم مال کا نظریہ بھی پیش کیا ہے۔ عدالت اجتماعی سے مراد انسان اپنے مال و متاع پر مکمل قابض نہ رہے بلکہ اس مال کے ذریعے دوسروں کی کفالت کریں، فقراء مساکین اور ایتام کو اپنے مال میں سے حصہ نکال کر دیں تاکہ وہ بھی اپنی زندگی کو احسن طریقے سے چلاسکیں۔ رسول اکرمؐ نے اسلامی حکومت کے قیام کے موقع پر فرمایا: کچھ اپنے مال سے آخرت کے لیے بھی بھیج دو، ورنہ وہاں پشیمان ہو جاؤ گے۔ اسی طرح اجتماعی منابع سے کوئی اپنی محنت سے یا خود حکومت معدنیات، سمندر سے موتی، گیس یا تیل وغیرہ نکالتی ہے تو اس پر خمس واجب ہو گا جو معاشرے کے حاجت مند افراد پر خرچ کیا جائے گا۔
اسلامی اقتصاد میں حکومت کی ذمہ داری کے عنوان سے مفصل گفتگو کی گئی ہے جس میں تعلیم، صحت، آبپاشی کا نظام، عدالتی نظام کو حکومتی ذمہ داری قرار دیا ہے اور اس کے علاوہ بیت المال کی تقسیم کےعمل کو بھی حکومتی ذمہ داری قراد دیا ہے۔
تقسیم مال کے حوالے سے تین طبقات بیان کئے گئے ہیں پہلا وہ جو اپنی ضروریات سے زیادہ کما لیتا ہے۔ اسلام نے کمائی پر کوئی پابندی نہیں لگائی انسان جائز طریقے جتنا چاہئے کما سکتے ہیں اور وہ اس کا مالک ہوگا۔ لیکن ضرورت سے زیادہ کا خمس اور زکواۃ دینی ہوگی۔دوسرا طبقہ اپنی ضروریات کے مطابق کماتا ہے تو اس پر نہ خمس ہے نہ زکوۃ۔ تیسرا طبقہ جو اپنی ضرویات زندگی پوری نہیں کر سکتا تو اس طبقے کی کفالت کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
لین دین اور منافع پر گفتگو کرتے ہوئے شہید صدرؒ فرماتے ہیں: اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے، چاہئے بینک ہو یا انفردی قرضہ ہو۔ سود اور جوا وہ ناپسندیدہ اعمال ہیں جس کے ذریعے سرمایہ دار دوسروں کی محنت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جاتا ہے جس سے طبقاتی نظام قائم ہوگا جو عدل اجتماعی کے خلاف ہے۔ لین دین اور حصول منافع کے لیے تبادلہ جنس، تبادلہ نقد اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس سود خوری، جوا اور ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے۔
حاکم وقت کی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ ہے کہ بازار پر نظر رکھے، قیمت اور تبادلہ کی کڑی نگرانی کریں تاکہ اضافی تصرفات کا راستہ روکا جا سکے۔
کتاب کا علمی مقام:
علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم، جو شہید صدرؒ کے شاگرد رشید ہیں، اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ کتاب ایک سمندر ہے جسے کوزہ کی بجائے قطرے میں سمیٹا گیا ہے اور ایک باغ ہے جسے پھول کی بجائے کلی میں بند کیا گیا ہے ۔"
اقتصادنا لکھے ہوئے آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی یہ کتاب اسلامی اقتصادیات میں اہم کتاب سمجھی جاتی ہے اور دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں اسلامی اقتصادیات کی ایک اہم دستاویز کے طور پر رکھی جاتی ہے۔ اسلامی دنیا میں یہ کتاب صرف شیعوں سے خاص نہیں بلکہ سنی ممالک جیسے مصر کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔ (صدر، اقتصاد ما، مقدمہ ناشر، ج۱، ۱۳۹۳ش، ص۱۰)
ڈاکٹر محمد مبارک لکھتے ہیں: کہ "اقتصادنا" میں اسلامی اقتصادی نظرئیے کو اسلامی احکام کی تحقیق کرتے ہوئے فقہی اصالت کو محفوظ رکھتے ہوئے علم اقتصاد کی اصطلاحات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (مراجعہ، صدر، اقتصادنا، ۱۴۲۴ق.)
اقتصادی مسائل اور منطقۃ الفراغ:
اسلامی اقتصاد میں شہید صدرؒ کا سب سے اہم نظریہ، منطقۃ الفراغ ہے۔ منطقۃ الفراغ کا نظریہ ان نظریات میں سے ایک اہم نظریہ ہے جو اقتصادنا میں بیان ہوا ہے اس نظریے کے تحت، اسلام، "اسلامی حاکم" کو اجازت دیتا ہے کہ وہ زمانے کی ضرورت کے پیش نظر قانون بنائے۔ شہید صدرؒ کے مطابق اسلامی حاکم " منطقۃ الفراغ " کے لیے اپنے صوابدید پر قانون بنا سکتا ہے، جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے بنائے گئے بعض قوانین بھی اسی قبیل کے ہیں۔ یعنی: پیغمبر ہونے کے ناطے نہیں، بلکہ حاکم ہونے کے ناطے۔ (صدر، اقتصاد ما، ج۲، ۱۳۹۳ش، ص۹، ۱۰)
شہید صدرؒ اسلامی حکومت کوتمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اسلامی حکومت کا حاکم، حاکم شرع ہوگا تو اس کو ولایت حاصل ہے کہ لوگوں کے اجتماعی منافع کے لیے قوانین وضع کریں اور کچھ مباحات پر پابندی لگا دیں۔
بینکنگ سسٹم شہید کی نظر میں:
آپ نے اقتصادنا کے علاوہ البنک اللاربوی فی الاسلام تحریر کی۔یہ کتاب”اللجنۃ التحضریۃ بیت التمویل الکویتی“ کے اس سوال کے جواب میں تحریر کی گئی جو شہید صدر ؒ سے اسلامی بینکنگ کے خدوخال اور اصول وضوابط کے متعلق کیا گیا تھا۔
شہید صدر ؒ کتاب کے ابتدائی صفحات میں غیر سودی اسلامی بینک کی تشکیل کے بارے میں فرماتے ہیں؛”بلا سود بینکاری کے دو مختلف موقف ہیں:
پہلا: اُس شخص کاموقف جو غیر سودی بینک کے خطوط کو پوری زندگی اور پورے سماج کے خطوطِ زندگی کے ساتھ مقرر کرنا چاہتا ہے۔ گویا ُاس نے پورے نظام حیات کی قیادت سنبھال لی ہے اور زندگی کے ہر شعبہ پر اختیار حاصل کر لیا ہے اور اب زندگی کے مختلف اسلامی شعبوں کے ذیل میں بینک کا بھی غیر سودی نظام تشکیل دینا چاہتا ہے۔یعنی اُس کا سماج بھی اسلامی ہے اور بینک بھی اسلامی۔
دوسرا: اس شخص کا موقف جو غیر سودی بینک قائم کرنا چاہتا ہے لیکن پورے سماج کے قانون سے الگ۔اُس کے ہاتھ میں سماج کا کوئی شعبہ اور کوئی اختیار نہیں ہے۔ اُسے اسی فاسد معاشرے اور غیر اسلامی اجتماع میں زندگی گزارنا ہے اور اسی ماحول میں بینک قائم کرنا چاہتا ہے۔جہاں بینک اور بینک کے علاوہ بھی ہر مقام پر سودی کاروبار کا قبضہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت، افکار اور اخلاق ہر شعبۂ زندگی پر چھایا ہوا ہے۔
آپ نے اقتصادنا میں ان فقہی مسائل پر بحث نہیں کی ہے کہ ایک بینک سے قرضہ لینا حرام ہے یا حلال ہے بلکہ آپ نے ایک اقتصادی سسٹم پر بات کی ہے کہ پوری دنیا کا اقتصادی طریقہ کار کیسا ہونا چاہے۔ انہی اقتصادی سسٹم کا ایک چھوٹا حصہ بینک ہے آپ نے اس موضوع پر نہایت مختصر مگر جامع گفتگو کی ہے مگر فقہی مسئلے کے طور پر نہیں، یوں سوال اٹھایا ہے کہ بینک کا سسٹم کیسا ہو؟ شہید صدر ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بینگ سے سودی سسٹم کو ختم کیا جائے تو تمام بینکنگ نظام ختم ہو جائے گا۔ جب بینک نہ رہے تو ملک کا اقتصاد ختم ہو جائے آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: یہ ایک خام خیالی ہے کہ سودی قرضہ بینکنگ نظام ایک شعبہ کے ختم ہونے یا اس کے نظام میں تبدیلی سے اقتصاد کیسے ختم ہو سکتاہے۔ اس سودی طریق کار کو تجارتی سسٹم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس میں بھی ایک مشکل پیش آئے گی کہ اگر بینک سرکاری ہے تو اس کا مالک کون ہے سرمائے پر معائدہ ایک ملازم کر رہا تو اس کے یہ اختیارات کس نے دیا ؟ کیا یہ ملازم منافع کی شرح طے کرسکتا ہے؟ کسی کا مال میں یہ کیسے تصرف کر سکتا ہے۔ کاروبار میں نفع نقصان کی شراکت کو کون طے کر سکتا ہے؟
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔